ٹیچر شہزادی .
قسط نمبر ( 1 )
پیارے دوستوں میری آپ سب سے درخوست ہے کہ غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں،
کہانی لکھنے میں وقت بہت لگتا ہے.
مزید دلچسپ کہانیوں کے لئے لائک اور کمنٹ ضرور کیجئے گا. اب سیدھے کہانی پر آتے ہے.
میرا نام حسن ہے میرا تعلق پٹھان گھرانے سے
صوبہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کا رہائشی ہوں
رب نے مجھے بہت حسن سے نوازا ہے رنگ گورا ہے ہلکی نرم داڑھی ہے پر مولوی نہیں ہوں مولوی ٹائپ جیسا ہوں
یہ کہانی ان دنوں کی ہے
جب میں ایک مدرسہ کا طالب علم تھا میری عمر بائیس سال تھی میں مدرسے میں پڑھتا تھا مدرسے میں میرا سب سے اچھا دوست عدنان ہے عدنان فرسٹ ٹائم سکول پڑھتا تھا دو بجے کے بعد وہ مدرسے میں پڑھنے آتا تھا ہم دونوں کی بہت اچھی بنتی تھی آخر عدنان نے مدرسہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انگلش لینگویج کورس سیکھنے کے لئے ٹیوشن سینٹر میں داخلہ لیا اور پھر ایک دن میری عدنان سے ملاقات ہوئی ہم ایک ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے میں نے عدنان سے کہا ٹیوشن سینٹر کیسا چل رہا ہے عدنان نے کہا بہت اچھا چل رہا ہے اور مجھے سینٹر میں پڑھنے کو کہا کہ آپ بھی لینگویج سینٹر پڑھو کچھ انگلش سیکھ جاؤگے اور پھر میں نے ابو سے بات کی ابو بھی مان گئے اب میں نے ٹیوشن سینٹر میں پہلا قدم رکھا تھا ، کہ میرا سامنا ایک خوبصورت ترین لڑکی سے ہوا جو ٹیچر تھی اور اس سے میری ملاقات آفس میں ہوئی ، اور انہوں نے ایڈمیشن دے دی.
ہماری جو ٹیچر تھی اس ٹیچر کا نام شہزادی ہے جیسا نام شہزادی ہے وہ حقیقت میں بھی شہزادی لگ رہی تھی اس کی خوبصورتی کی مثال نہیں دے سکتا
حسن مصری سے کم نہیں تھی
وہ بلوچ گھرانے سے تھی بادامی نشیلی آنکھیں تھی رنگ گورا بلوچ قوم کی لڑکیوں کی آنکھیں جس کی مثال نہیں ملتی اتنی خوبصورت ہوتی ہیں مجھے پہلی نظر میں اس لئے بھاگئی اس کی آنکھوں میں وہ نشہ تھا جس کو میں دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا وہ ایک نارمل قد کی مگر بھر پور جسم کی مالک تھی بڑے اور بھاری ممے اور پتلی کمر اس کی تقریباً کوئی 26 سال تھی اور خوبصورت تراشے ہوئے چوتڑ جب وہ چلتی تو دونوں کی حرکت سے پورے جسم میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی تھی، بہرحال میں میڈم کی خوبصورتی کا دیوانہ ہوگیا تھا آگے چلتے ہے .
شروع کے دنوں میں میڈم شہزادی میری منڈلاتی نظروں کو نظر انداز کرتی تھی مگر میری مسلسل نظروں کی گستاخیوں کو زیادہ دیر نظر انداز نہیں کر سکی شاید اس سے پہلے کسی لڑکے نے اس کو اتنا
تا ڑا بھی نہیں ہوگا، آہستہ آہستہ کچھ دنوں میں اس نے بھی پگھلنا شرو ع کر دیا ویسے میں اس کی بہت عزت کرتا تھا اور کرتا بھی کیوں نہیں حسن ملکہ جو تھی جب میں کلاس پہنچتا تو بڑی میٹھی مسکراہٹ سے اسقبال کرنا شروع کر دیا اور اس کا رویہ میرے ساتھ بے تکلفانہ ہو گیا تھا، شاید اب وہ بھی مجھے پسند کرنے لگی تھی میڈم شہزادی نے مجھ کو کافی عرصہ پڑھایا اور میری انگلش لینگویج بھی اچھی
ہو گئی، پڑھائی کے دوران جب وہ پرکٹیکل کرواتی تھی میں اس کے ایک ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اس کو دباتا پھر سہلاتا رہتا تھا ، وہ میری اتنی قریب ہوتی تھی میں اسکی گرم سانسیں محسوس کر رہاں تھا میں اس ہاتھ کو ٹچ کرتا میری اس حرکت کا اس نے کبھی بھی برا نہیں منایا ، ایک دن میں نے ہمت کرکے اسے کہا کے کہ میرا بہت عرصہ سے دل چاہ رہا ہے آپ سے کچھ کہنے کو وہ میری بات سن کر مجھے گھورتے ہوئے پیچے ہٹی اور بولی کیا کہنا چاہتے ہو میں اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر لمبی سانس لی
میں بولا میڈم ابھی بول نہیں پا رہا ہوں دل کی بات کہنا چاہتا ہوں ابھی ہمت نہیں ہورہی میڈم مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بولی چھ بجے کے بعد میرے آفس میں آ جاؤ کیونکے چھ بجے کے بعد سینٹر بند ہو جاتا ہے پھر وہ آفس اندر سے بند کر کے اپنا کام مکمل کرتی ہے، میڈم شہزادی نے کہا کہ چھ بجے سے تھوڑا پہلے آجانا آفس . میں نے پوچھا اس کی وجہ ، تو وہ کہنے لگی کہ اس وقت سارے سٹوڈنٹس دیکھ رہے ہے میں نے میڈم شہزادی سے کہا میرا کلاس میں دل نہیں لگ رہا مجھے شہزادی کی شہوت بھاری مسکراہٹ سکون نہیں لینے دے رہی تھی بار بار میرا لن کھڑا ہو جاتا تھا شلوار میں اس وجہ سے لن کا ابھار بڑا واضع طور پر نظر آ رہا تھا ، جو میڈم شہزادی سمجھ چکی تھی اس وجہ سے ، کلاس میں بلکل دل نہیں لگ رہا تھا بار بار شہزادی کا خیال تنگ کر رہا تھا اس کے شہد سے بھرے ممے اور رسیلے ہونٹ بری طر ح سے تڑ پا رہے تھے میرا وقت بلکل بھی نہیں گزر رہا تھا خیر جیسے چھ بجنے میں پانچ منٹ پر میں میڈم شہزادی کے آفس میں پہنچا میڈم شہزادی نے مجھے دیکھ کر اشارہ کیا جیسے ہی میں آگے بڑھا شہزادی کہنے لگی کیا بات ہے بہت دنوں سے میں یہ نوٹ کر رہی ہوں تمہارے نظرے میری طرف منڈلاتی رہیتی ہے اور بولی تمہارے دل میں کیا ہے کیا کہنا چاہتے ہو میں اس دوران اس کے جسم کے حسین نشیب و فراز میں کھویا رہا اس دن اس نے بلوچی ڈریس پھیلی قمیض شلوار پنہی ہوئی تھی ریشمی شلوار قمیض میں اس کا جسم اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا، میرا لن اس وقت کتنی
بری طر ح سے اکڑا ہوا تھا میڈم نے آگے آنے کو کہا جیسے ہی چل پڑا میڈم شہزادی کی نظرے میرے لن پر پڑی جو صاف ظاہر ہو رہاں تھا میڈم پہلے سے میری نیت سمجھ گئی تھی میں اس کے سامنے تھوڑی دیر کڑا رہا . وہ اٹھ کر میرے قریب آکر کڑی ہوئی میرے ہونٹ اس کے ہونٹ کے بہت قریب تھے میڈم بولی کچھ بولوگے بھی یا ایسے ہی بدھو بن کر کھڑے رہوگے میں ہمت کرکے آگے سے بول پڑا میڈم آپ اتنی خوبصورت ہو آپ کو دیکھ کر میرے ہوش اڑ جاتے ہے میں ہر وقت آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں میں میڈم کی تعریفیں کرتے ہوئے اپنی ہونٹوں کو اس کی ہونٹوں کے پاس لے جاکر لمبی سانس لی اور ایک دم میڈم شہزادی کی رس بھری ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے لمبی کس کی وہ بولی یہ کیا بدتمیزی ہے اور مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی میں نے اس کو کس جکڑ کر پکڑا اور اس کی ہونٹوں کو چوسنے لگا پہلے تو جان چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی وہ بھی مجھے پسند کرتی تھی مگر کبھی اظہار نا کرسکی اب آہستہ آہستہ اس کو بھی مزہ آنے لگا اب میڈم بھی دیرے دیرے ساتھ دینے لگی بلاخر شہزادی نے سب کے جانے کے بعد اندر سے دروازے کو کنڈی لگا دی اور دروازے پر ہی کھڑے ہو کر میری طرف اپنے بازو کھول دیئے شہزادی میری نیت خوب سمجھ چکی تھی مجھ سے انتظار بلکل نہیں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر میں دوڑ کر شہزادی کے پاس پہنچا اور اس سے سختی سے چمٹ گیا میں نے جھک کر اپنے سینے سے شہزادی کی چھاتیوں کو دبوچ لیا اور اپنے ہونٹوں سے شہزادی کے ہونٹوں کی بڑی سختی کے ساتھ چسپاں کر دیا شہزادی نے اپنی زبان میرے منہ میں دل دی جسے میں نے مزے لے لے کر چوسنا اور چاٹنا شروع کر دیا اب کبھی میں شہزادی کی زبان چوستا تھا اور کبھی وہ میری اسی طر ح ہم دونوں ایک دوسرے کو چومتے اور چاٹتے جا رہے تھے جتنا مزہ مجھے آ رہا تھا اتنا ہی مزہ شہزادی کو بھی
آرہا تھا میں نے اس کی نرم ملایم چھاتیوں کو سختی سے اپنے سینے میں جکڑا ہوا تھا مگر شہزادی اس سے زیادہ زور لگا کر میرے سینے کو اپنی چھاتیوں میں دبا رہی تھی شہزادی کو میں نے اپنے بازوں میں جکڑ کر اٹھایا اور وہ اتنی ہلکی پھلکی تھی کے مجھے ذرا بھی محسوس نہیں ہوا اس دوران مجھے اچانک ایسا لگا کہ میرا لن کہیں جکڑا لیا گیا ہے جس کی وجہ سے مجھے اور بھی لزت ملنی شروع ہو گئی ہم دونوں ایک دوسرے میں گم ایک دوسرے کے مزے لوٹ رہے تھے جتنا میں پیاسا تھا اس سے کہیں زیادہ وہ تڑپی ہوئی تھی ، میں نے شہزادی کی قمیض اتارنی چاہی تو اس نے اپنے دونوں بازو اوپر کر دیئے میں نے شہزادی کی قمیض اتاری اب میری شہزادی میرے سامنے آدھی ننگی ہوگئی اس کا یہ گورا بدن اس کی گول مٹول چھاتی پنک کلر کے بریزر میں جکڑے ہوئے ممے اف اف اف اف کیا غضب ناک منظر پیش کررہا تھا اور پھر میں اس کے مموں کو بریزر کے اوپر سے چاٹنے لگا اور پیچھے سے بریزر کے ہک کھولنے لگا اب بریزر بھی اتار دی جسکی کی وجہ سے اس کی گول سرخ و سفید ممے جس کے پنک نیپلز تھے کھل کر میرے سامنے آ گئے میں شہزادی کے نیپل پر منہ لگانا ہی چاہتا تھا کہ اس نے مجھے اپنی قمیض اتارنے کو کہا یہ سن کر میں نے فورن اپنی قمیض اتار دی اب ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے آدھے ننگے کھڑے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو پیاسی اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے شہزادی کی نظریں میرے لن پے ٹکی ہویں تھیں میں نے شہزادی سے کہا کے شہزادی ایک بار اپنی اس خوبصورتی کو قربان کر دو مجھ پر یہ سن کر شہزادی مسکرانے لگی اس کے ساتھ ہی میں نے اپنےہونٹ اور زبان سے دونوں ممے چاٹنے اور چوسنے شرو کر دیئے جیسے جیسے میں شہزادی کے ممے چوستا اور چاٹتا جا رہا تھا ویسے ہی ویسے وہ مستی میں ہوتی جا رہی تھی اسے میرا اس کے ممے چوسنا اور چاٹنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا، مجھے بھی بہت مزہ آ رہا تھا ساتھ ساتھ میں شہزادی کے چوتڑوں کو شلوار کے اوپر سے اپنی مٹھیوں میں لے کر مسلتا جا رہا تھا شہزادی پوری طر ح سے مست ہو چکی تھی اور میرا جو بھی دل چاہ رہا تھا وہ میں کرنے کے لیا آزاد تھا ممے چوسنے کے بعد میں اپنے منہ کو اس کے پیٹ پر لیا اور اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا میرے ایسا کرنے سے اس کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا مگر میں نے سختی سے اسے اس کے چوتڑوں سے پکڑا ہوا تھا، شہزادی کی مستی سے بھاری ہی آوازیں آفس میں گونج رہی تھی پھر میں نے شہزادی کو نیچے بچھی ہوئی قالین پر لٹھا کر صوفے کا ایک کشن اس کے سر کے نیچے رکھا وہ میرے سامنے لیٹی میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان آکر بیٹھ گیا اس کی دونوں ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھی میں جھک کر اس کے مموں کو ہاتھ میں لے کر اس کو کس کرنے لگا کس کرتے کرتے پھر میں نے شہزادی کی شلوار کا ناڑا کھول کر اس کی شلوار اتار دی جیسے اسکی شلوار اوپر کی اس کی پنک چوت جس کے اوپر تھوڑے تھوڑے بال تھے ایسا لگا کچھ ہی دن ہوئے ہے صفائی کو اس کی چوت میرے سامنے آ گئی .
جاری ہے۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment