لائیبہ کی کہانی

لائیبہ کی کہانی۔ کراچی، ایک پہیلی،ایک خواب ہے۔ یہاں پاکستان کے ہر حصے سے لوگ بستے ہیں، روز کئی نئے لوگ بوریا بسترا لے کر سہراب گوٹھ پہنچتے ہیں،اور پہر روزی کی تلاش میں پھیل جاتے ہیں۔یہاں کا کلچر صرف ایک ہے: پیسہ۔ یہاں ایک طرف کورنگی کا متوسط طبقہ ہے،لیاری کی غربت ہے،اور کلفٹن یا ڈیفینس کا امیر الٹرا ماڈرن کلچر، میں نے ڈیفینس جیسے پوش علاقے کے ایک امیر خاندان میں آنکھ کہولی،مجھ سے بڑا ایک بھائی تھا اور میں،ابو لیدر ایکسپورٹ کے ایک مانے ہوئے کہلاڑی تہے،سارا دن، ہفتے کا چھ دن مصروف رھتےتہے، مگر جون اور جولائی ہمارا اکثر یورپ میں گزرتا تھا،2003 تک جب میں صرف دس سال کی تھی تو میں نے انگلینڈ، رومانیہ، ترکی،چیک ریپبلک،آسٹریا، جرمنی وغیرہ دیکھ لئے تہے۔ ڈیفینس کی ہر شام نہیں تو ہر دوسری شام پارٹی ہوتی تھی، جاجں پہ وائننگ اور ڈاننگ معمول ہوتا تھا۔ ہاں میں اپنا تعرف کرانا بھو ل گئی، میرا نام لائیبہ انور ہے، میرے والد کا نام انور خان ہے، اور والدہ کا نام عظمت بیگم ہے، میرا بھائی عون، مجھ سے عمر میں چار سال بڑا ہے۔ میرے والد کا تعلق ہزارا سے ہے اور امی کا کراچی میں سیٹلڈ ایک پٹھان فیملی سے۔ ابو کی شکل سب ہزاروال کی طرح کچھ کچھ چائینیز سے ملتی ہے۔جس کی وجہ سے میری شکل بھی ذرہ سی چائینیز سی ہو گئی ہے پر زیادہ نہیں، ایسے سمجھ لیں جیسے ہم ٹی وی کی اداکارہ صنم جونگ تقریبن اسی فیصد مجھ جیسی دکھتی ہے، میرا قد شاید ایک انچ بڑا ہو اس سے، جو کہ پانچ فٹ سات انچ ہے اور میں کچھ زیادہ گوری ہوں اور میرے بال ہلکے بلونڈ ہیں اور آنکہیں بوجرے رنگ کی۔ اسکول میں سب لڑکیاں مجھے "انگریزن" کہ کے چڑاتی تھی۔ 2006 میں میری عمر 13 سال ہوئی تو میں 17 کی لگتی تھی، اور اسکول کے باہر جب میں گاڑی میں بیٹھتی تو پڑوس کے کافی لڑکے مجھے گہور گہور کے دیکھتے تہے، مجھے حیرت ہوتی تھی کہ وہی لڑکے روز روز کیوں آتے تہے؟ اور مجھے کیوں تکتے تہے۔ میں تیرہ سال کی حوگئی تھی، اور میرے جسم میں تبدیلیاں ہو رہی تہیں، میرے بغلوں میں نازک سے بہورے بال اگنے شروع ہو گئے تھے، اور اسی قسم کے بال میری چوت کے اوپر اور ارد گرد اگ آئے تہے۔ میرے ممے بڑے ہو رہے تھے اور نپلز کے اندر چہوتے بٹن جیسے "گلٹ" بن گئے تےن۔ ایک روز میں سو رہی تھی کہ مجےی اپنا ٹراؤزر گیلا سا لگا۔ نیں یار میں نے اس عمر میں بستر پہ پیشاب کردیا؟ میں نے غصے سے سوچا، مگر یہ جلن کیسی تھی چوت کے ارد گرد، میں نے اٹھ کر دیکھا تو میری آنکہیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں، میری چوت کی جگہ سے ٹراؤزر پہ لال سا دھبہ تھا، میں فورن باتھ روم کی طرف بھاگی۔ اور ٹراؤزر اتار کے ٹوائلٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی۔ ڈر ڈر کے نیچے دیکھا تو میری چوت کے اندر سے ہلکا ہلکا خون ابھی بھی رس رہا تھا، اور چوت کے اندرونی حصے میں جلن سی ہو رہی تھی، میرا ایک با ھاتھ جل گیا تھا کافی سال پلےر مگر یہ جلن عجیب سی تھی میری جھانگوں میں سے میرے ریڑہ کی ہڈی تک ایسا سرور محسوس ہو رہا تھا کہ دل چاہ رہا تھا کہ ہوتا رہے، میں کنفیوزن میں ٹراؤزر پنی کر باہر نکلی۔ اور رات کے تین بجے موبائل سے امی کو کال کرنے لگی، امی نے نیںھ اٹھایا مگر دوسری بار کال کی تو میرے کمرے کا دروازہ بجا۔ میں نے ڈر ڈر کے دروازہ کہولا تو امی کھڑی تہیں۔ کیا ہوا ہے تمیںہ، ٹائم دیکھا ہے کیا ہوا ہے؟ امی نے غصے سے کھا۔ میں نے کچھ نیںو کھا اور امی سے لپٹ کے رونے لگی۔ کیا ہو گڑیا؟ میں روتی رہی، آخر امی نے میرا ٹراؤزر دیکھ لیا۔ ارے کچھ نیںل پاگل۔ امی نے مسکرا کر کھا۔ میں مر رہی ہوں امی؟ میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے پوچھا۔ ارے نہیں بیٹا تم بڑی ہو رہی ہو۔ امی نے جواب دیا۔ میں حیرت سے انہیں دیکھتی رہی۔ امی اپنے کمرے سے کچھ پیڈز اٹھا کے لائیں۔ اور میری چوت کے ارد گرد کس کے باندہ دۓ۔ اور مجھے اگلے دن اسکول سے چھٹی کرنے کا کاک۔ اگلے دن امی نے میرے کمرے میں پیڈز کا ڈبہ رکہوا دیا۔ اور مجھے پننے کا طریقہ بھی سمجھا دیا۔ میں کا فی ریلیکس ہو گئی تھی، انٹرنیٹ پہ میں نے پیرڈ کے بارے میں کا فی احتیاط بھی پڑھ لی تہیں۔ چار دن تک پیرڈ چلا اور میں نے سکول سے چھٹی بھی کی۔ چوتےک دن میری سب سے اچھی دوست، ماہم کا فون آیا اس نے خیریت اور سکول نہ آنے کی وجہ پوچھی، میں نے سب بتا دیا۔ وہ بت ہنسی۔ میں کھسیانی سی ہوگئی، مجھے سیکس کے بارے میں پتہ تھا، ہم لڑکیاں آپس میں باتیں بھی کرتی تہیں کہ لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مگر اب پتہ چل رہا تھا کہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ ہنسو کمینی ہنسو، جیسے تمھارا بھی ہو چکا ہے، میں نے چڑ کر کہا۔ چار مینے پلےا۔ ماہم نے بتایا۔ جہوٹی۔ قسم سے۔ مجے نہیں بتایا۔ تم استنبول میں تہیں۔ مجھے یاد آیا، چھٹیاں تہیں۔ ہمممم تو اب کیسا لگ رہا ہے؟ ختم ہوگیا، پر مجھے عجیب سا لگ رہا ہے ، مزہ سا آرہا ہے۔ چوت کے آسپاس نہ؟ ہاں ہوتا ہے۔ ہوتا تو ہے پر اب کیا کروں؟ صبر۔ کمینی۔ اچھا سنو۔ کمرہ لاک کر کے فنگرز کے ساتھ اپنی چوت کے اندر پیشاب والے سوراخ کے ارد گرد رب کرو۔ اس سے کیا ہوگا؟ کرو تو سیی؟ مگر انگلی اندر مت ڈالنا، سیل ٹوٹ جائے گی۔ سیل؟ ہاں، تمھارے بواۓ فرینڈ کا گفٹ۔ وہ پہر سے ہنسنے لگی۔ میرا کوئی بواۓ فرینڈ نیں ۔ ہاے پتہ نیں کون لکی باسٹرڈ ہوگا، کاش میں لڑکا ہوتی۔ ذلیل ہو تم پتہ ہے ناں؟ میں جو بیا ہوں تم کمرہ لاک کر کے جو کان ہے وہ کرو اور مجھے کال کرو بعد میں۔ شوئر؟ ہاں بابا شوئر۔ میں نے فون ڈسکنیکٹ کیا اور کمرے کو لاک کر دیا۔ ٹراؤزر اتار کے میں نے بستر پہ بیٹھ کے اپنی ٹانگیں کہول دیں، میری چوت لال ہو رہی تھی۔ میں نے ڈر ڈر کے دو انگلیوں سے اپنی چوت کے لپس کو ذرہ سا کہولا، اور دوسرے ہاتھ کی انگلی سے اپنے پیشاب کرے والے سوراخ کو ہلکے ہلکے سے مسلنے لگی۔ اچانک میرے جسم کو جھٹکا ؒگا، اس دن جو مزہ میں نے ہلکا سا محسوس کیا تھا، وہ جوالا مکھی بن کر میری چوت سے نکلا دو میٹ کی رغڑ سے میری چوت کی اندر سے مزے کا طوفان نکلا۔ انننگگگگگگگ یممممممممممممممممممممم " میرے منہ سے خود بخود آواز نکلی، میرا پورا جسم اکڑ گیا، میں انگلی سے تیز تیز اپنی چوت کو رگڑنے لگی۔ آننننننن ھھھھھھھھھھاااااااا آآآآآآآآآآآآآآ۔ میری چوت سے کرم پانی نکلا اور پورے جسم میں مزہ اور سرور پھیل گیا۔ میری چوت سے تین ہلکے پہوارے نکلے اور ہر بار اتنا شدید جھٹکا لگا کہ میری ٹانگیں بیڈ سے اوپر اچھلیں۔ میں بیڈ پہ سیدہی بے سدہ لیٹ گئی۔ میری سانسیں تیز تیز چل رہی تہیں اااھھھھھھھھھھگگگگگگگگگگگ اااااھھھھھھھھھھ' اس بار میں نے چوت کو چہوا بھی نہیں ایک اور زور کا پہوار میری چوت سے نکلا اور مزہ مجھے اپنی چوت کے عین وسط سے لے کر کانوں کی کنپٹیوں تک محسوس ہوا۔ میں کافی دیر تک ننگی بیڈ پہ لیٹی سانسیں لیتی رہی۔ جب ہوش آیا تو میں نے ماہم کو فون کیا۔ کیسا رہا؟ آسم یار، یہ کیا تھا ؟ مزہ بےبی مزہ۔ میں تو روز کرنے والی ہوں یہ بار بار۔ نووووووووووووو پاگل ایک بار رات کو بس۔ ہم کا فی دیر باتیں کرتے رہے۔ اگلے کئی روز تک میں دن کو رات کو مسٹربیٹ کرتی رہی۔ ایک دن ماہم رات کو میرے پاس رک گئی۔ تمہیں کچھ دکھاؤں؟ ماہم نے کا ۔ کمپیوٹر آن کرو۔ کیوں؟ کرو تو۔۔ اچھا بابا۔ میں نے کمپییوٹر آن کیا۔ ماہم نے ایک پورن ویب سائیٹ کہول لی۔ ایک گورا ، میم کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ کمینی ہو تم۔ میں نے کہا۔ ہممممم وہ گورا اس میم کو کس کر رہا تھا فیل مجےٹ اپنے لپس پہ ہو رہا تھا۔ وہ میم کو چاٹتا رہا، اس کے ممے چوستا رہا، مجھے اپنی چوت کے اندر مزہ فیل ہونے لگا۔ ماہم تو شلوار اتار کے رگڑنا شروع ہوگئی۔ کتنی بے شرم ہو تم۔ میں نے کھا۔ شٹ اپ۔ میں نے ماہم کی چہوٹی سی چوت کو دیکھا، میری اور ماہم کی چوت میں ذرہ فرق تھا، اس کی چوت کے لپس چاکلیٹ کلر کے تےر اور میرے پنک، اس کی چوت کا اپر ہڈ ہلکا سا کہلا تھا اور میرا بلکل بند، گورے نے اپنا لنڈ میم کے منہ میں ڈال دیا۔ یاخخخخخخخ گندے کمینے۔ مجھے الٹی سی آنے لگی۔ سیکھ لو کام اۓ گا۔ میں نے ہلکی سی چپت مار دی ماہم کو۔ اس کا لنڈ کتنا بڑا ہے۔ ماہم نے کھا۔ اس کی چوت میں فٹ آئے گا؟ چوت بھی تو بڑی ہے میم کی۔ میں نے اپنی چوت کو دیکھا، ماہم نے مسکرا کے دیکھا۔ وہاں تو چوہے کا بھی پہنس پہنس کے جاۓ گا۔ ہم دونوں کھلکہلا کے ہس دی۔ گورے نے میم کی چوت میں لنڈ ڈال دیا جو آرام سے چلا گیا، میم کے منہ سے ہلکی سسکی نکلی۔ بے چاری کو درد ہو رہا ہے ناں۔ مزہ آ رہا ہے کمینی کو۔ ہمممممم میں نے اور ماہم نے اس رات چار بار وڈیوز دیکھ کے مسٹربیٹ کیا۔ ''''''''''' اگلے کچھ دنوں میں سکول میں بت سی تبدیلیاں ہوئیں ، اگلی کلاس میں کو ایجوکیشن سسٹم ہو گیا لڑکوں اور لڑکیوں کی سیٹس الگ تہیں مگر کلاس ایک ہی تھی۔ میری کئی دوست تھی مگر ماہم جتنی کلوز کوئی نیںا تھی، میں اور ماہم بریک ٹایم میں اکثر ساتھ رہتی تہیں، کلاس کا سب سے ہینڈسم لڑکا ناھل تھا، سب لڑکیاں اسے دیکھ کے ٹھنڈی آہیں بریتی تہیں مگر میں نیںو، شاید میں مسٹربیشن میں زیادہ خوش تھی۔ نایل کو شاید میں اس لئے بھی پسند نہیں کرتی تھی کہ اس کے والد ایک لسانی تنطیم ایم کیوایم کے اہم رہنما تےں، گو کہ ایم کیوایم شرک کی سب سے بڑی جماعت تھی مگر ڈفینس میں گنے چنے افراد ہی اس جماعت سے وابستہ تے ، ابو نے مجےے صرف اتنا بتایا تھا کہ اس جماعت کے ہاتہوں کئی بے گناہ لوگ مارے گۓ تےا۔ میں نے کئی بار محسوس کیا وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے، مگر میرا چررہ دیکھ کے ہی وہ سمجھ جاتا تھا کہ میں انٹریسٹد نہیں ہوں۔ جس طرح میں اور ماہم ہمیشہ ساتھ رہتے تہے، نہال کا بھی ایک گروپ تھا، جس میں چار لڑکے تہے، جواد، منیب، عماد اور خود نہال۔ وہ چاروں، بریک میں جتنا ہو سکتا میرے اور ماہم کے قریب رھتے تہے۔ ہم جگہ تبدیل کرتے تو وہ پیچہے پیچہے آجاتے۔ کیا نہال مجھے چودے گا۔ ایک دن ماہم نے اچانک پوچھ لیا۔ اس سے اچھا ہے گدھے سے چدوا لو۔ میں نے جواب دیا۔ ٹرین کرنا پڑے گا گدہے کو بنے بناۓ مل رہے ہیں۔ میں ہنس دی۔ نہال نہیں یار ۔۔۔ کیوں؟ وہ ایم کیو ایم ایشو یو نو۔ اس میں اس بے چارے کا کیا قصور۔ جو بھی ہو، میں اس بارے میں بات نہیں کرناچاہتی۔ تو تم ابھی سیکس کے لۓ تیار نہیں۔ تیار؟ مر رہی ہوں میں ۔۔ 14 سال کی ہو گئی ہوں اٹس رائٹ ٹائم، مگر نہال نہیں۔ کوئی اور ہے تمھاری نظر میں؟ ہممم ہاں ایک ہے۔ ماہم نے کھا۔ کون؟ نام پتہ نہیں؟ کون سی کلاس میں ہے؟ کلاس میں نہیں ہے، کینٹین میں ہے؟ ہیں؟ وہ نیا ویٹر لڑکا نہیں؟ کینٹین میں ایک نیا لڑکا آیا تھا، پٹھان تھا، شاید۔ نہیں نہیں۔ میں نے ریجیکٹ کردیا۔ اچھا تو ہے، سولہ سترہ سال کا ہے۔ ماہم نے لقمہ دیا۔ یار کچھ تو اسٹینڈرڈ رکوو۔ تمھاری مرضی، میں تو لائیک کرتی ہوں اس کو۔ شٹ اپ۔ یار۔ میں نے تو بات بھی کرلی ہے، کل جا رہی ہوں اس کے ساتھ بریک کے وقت رکشے میں۔ کہاں؟ اس کے گہر، نیلم کالونی، ایک دوست کے ساتھ رھتا ہے، کل اس کا دوست گہر پہ نہیں ہوگا۔ تم پاگل ہوگئی ہو۔ کچھ ویٹ نہیں کر سکتی؟ نہیں نہیں نہیں۔ میں نے کافی سمجھایا مگر وہ نہ مانی، مجھے لگ رہا تھا وہ مذاق کر رہی تھی، مگر دوسرے دن وہ چپکے سے بریک کے دوران سکول کے گیٹ سے باہر نکل گئی، اس کے پیچہے وہ کینٹین والا لڑکا جس کا نام عید خان تھا وہ بھی چلا گیا۔ میں نے بے یقینی میں سر ہلا دیا۔ وہ واپس سکول نہیں آئی، چھٹی کے بعد میں ڈرائیور کے ساتھ گہر آ گئی۔ رات کو میں نے ماہم کو کال کرنے کی کوشش کی مگر اس نے کا اٹینڈ نہ کی۔ ،،،،،،،،، دوسرے دن ہماری ملاقات کلاس میں ہوئی، وہ کھل رہی تھی، اور کینٹین میں عید خان کسی پرندے کی طرح چھک رہا تھا، بھاگ بھاک کے ٹیبل صاف کر رہا تھا، میں کھڑکی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ماہم میرے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھی تھی، میں نے اسے دیکھا تو اس نے مسکرا کے آنکھ مار دی۔ میں زیرلب مسکرا دی۔ تو عید خان کی عید سے پھلے عیدی کروا دی تم نے۔ بریک کے دوران میں نے ماہم کو چڑایا۔ یار کیا مزہ آیا ، اصل چیز اصل ہے۔ میں ہنس دی۔ ہوا کیا؟ سیکس اور کیا؟ کمینی اکیلے اکیلے مزہ لے آئی۔ تجہے تو بولا تھا چل۔ نہیں یار، عجیب لگتا ہے۔ عجیب کیا ہے اس میں؟ مطلب جان نہ پھچان۔ تم نے کون سی شادی کرنی ہے اس سے۔ پہر بھی۔ پورے ایک ھزار دۓ اس کو، بزنیس تھا۔ بس۔ عید خان مسکراتا ہوا ہمارے پاس آیا۔ چاۓ ، بوتل، چپس میڈم جی؟ وہ دانت نکال کر بولا۔ لنڈ ملے گا؟ میں نے پوچھا ماہم کھلکہلا کے ہنس دی۔ عید کنفیوز سا ہوکے تہوڑا سا مسکرایا۔ چل دو کوک لے آ، میں نے زیادہ تنگ نہیں کیا۔ وہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔ پٹھان ہے سالا دو تین مرتبہ اس نے لنڈ گانڈ پہ رگڑا تھا۔ نہیں یار۔ اور کیا ایک تھپڑ مارنا پڑا، پہر سیدھا ہوا۔ مزہ کس چیز میں زیادہ آیا؟ لکنگ کرواٰئی اس میں۔ نہیں یار۔ ہمممممم درد ہوا؟ شروع میں جان جا رہی تھی، مگر پہر ایک منٹ بعد بھت مزہ آیا۔ بلیڈنگ؟ نہیں یار لگتا ہے میں نے کیں مسٹربیشن میں اپنی سیل ہلا دی تھی۔ ہممممم عید دو کولڈ ڈرنکس لے کے آیا۔ اور کچھ میڈم جی۔ نہیں بس۔ میں نے کھا۔ وہ وہ۔۔ عید شرما کے کچھ کھناچاہ رہا تھا۔ کیا وہ وہ؟ آپ بھی کبھی خدمت کا موقع ۔۔۔۔۔ میں جان بوجھ کے اس کی آنکہوں میں دیکھنے لگی، مجھے پتہ تھا میری ڈائریکٹ گیز بھت سیکسی ہے۔ کیا کر سکتے ہو میرے لۓ۔ سب کچھ۔ گانڈ مارو گے میری؟ عمارۃ کھل کہلا کے ہنس دی۔ عید ھکا بکا رہ گیا۔ موڈ ہوگا تو خود بتا دوں گی۔ آئیندہ مت کھنا۔ جی جی میڈم جی۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تہے، کہ نہال اور فواد ہماری طرف آۓ۔ اھھھہممممممم، بات ہوسکتی ہے؟ نہال نے اعتماد سے پوچھا۔ نہیں۔ میں نے اتنے ھی اعتماد سے جواب دیا۔ کیوں؟ ہماری مرضی۔ آئی لو یر کانفیڈنس یو نو دیٹ؟ اینڈ آئی ھیٹ یررس۔ میرے پاپا کی سیاست وجہ ہے؟ ہاں۔ میرا کیا قصور اس میں؟ سنو نہال پہر کبھی بات کریں گے۔ ماہم نے کھا۔ نہیں ماہم، بات آج ھی ہو جاۓ، بنتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ آئندہ میں بھی کوشش نہیں کروں گا۔ کوئی فائدہ ہے نہیں۔ میں نے کھا۔ اصل میں ہے، فایدہ یہ ہے کہ آپ کو ثابت کرنا ہے کہ آپ میرے پاپا کی طرح تؑصب پرست نہیں۔ تو آپ اپنے پاپا پہ نہیں گۓ؟ ویری فنی بٹ نہیں۔ میرا ان کے کاموں سے کچھ لینا دینا نہیں، میرا دوست پنجابی ہے، اور ایک اور دوست پٹھان، ایسی بات ہوتی تو یہ کیوں میرے ساتھ ہوتے۔ میں پنجابی ہوں مس۔ فواد نے ھاتھ اٹھا کے کہا۔ اوکے آئی ایم امپریسڈ،چاہتے کیا ہو۔ دوستی۔ عمر بہر کے لۓ۔ نکاح کرنا ہوگا؟ نہیں نہیں نکاح والا جو بھی ہوگا آپ کو مبارک، ہم صرف دوستی کرناچاہتے ہیں۔ ہم سوچ کے جواب دیں گے۔ ماہم نے کھا۔ میں نے غصے سے ماہم کو دیکھا۔ سوچیں مت کل کارلٹن یونائیٹد میں لنچ بھی کرتے ہیں اور بات چیت بھی۔ اگر دوستی پہ مان جاتے ہیں تو ٹرمس اینڈ کنڈیشن بھی سیٹ کرلیں گے۔ ٹرمس اینڈ کنڈیشن؟ ماہم ہنس دی۔ ٹھیک ہے کل بریک میں ملتے ہیں سب سکول بنک کریں گے ۔ میں نے اچانک کہا تو ماہم حیرت سے دیکھنے لگی۔ آئی اگری۔ نہال مسکرا دیا۔ Copied https://leakxxxvideosx.blogspot.com

Comments